Header Add

اولاد کی تربیت


اولاد کی تربیت

بچوں کی تربیت کے چار مراحل

اخلاقی اور نفسیاتی تربیت کا آپسی تعلق

ذہنی اورجسمانی تربیت کا آپسی تعلق

غصیلے اورچڑچڑے  بچوں کا علاج

بچوں کی تربیت کا پلان

بچوں کی تربیت میں  حکیم لقمان کے ارشادات

بچے غلطی کیوں کرتے ہیں؟

بچوں کی تربیت  میں کیئر کونسلنگ کا کردار

بچوں کی تربیت اور مکافاتِ عمل

اولاد کی تربیت

بچوں کی  تربیت والدین کی اول ترین ترجیح ہونی چاہئے۔ اس کے متعلق  اللہ اوراس کر رسول کے احکامات بڑے واضع  اور بین ہیں۔

۔ارشاد باری ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ﴿﴾

اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر

[سورہ تحریم:۶]

حضرت عمرو سعید بن العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’ والد کا اپنی اولاد کو اس سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں کہ اسے اچھے آداب سکھائے۔‘‘ (جامع ترمذی و حاکم)

آج کے دور کا سب سے بڑا مسئلہ اولاد کی تربیت ہے۔ آج کے بچے کل کے معمار ہیں۔ تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے زندگی میں کامیاب ہوجائیں  لیکن ستم ظریفی دیکھیں کہ والدین ہی وہ ہیں جو اپنے بچوں کی تباہی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔ بچوں کی تربیت میں والدین کا کردار سرے سے نظر ہی نہیں آتا۔ میری نظرمیںایسے  سینکڑوں والدین  ہیں جن کی خواہش تو ہے کہ بچوں کی تربیت اچھی ہو لیکن عملی اقدامات صفر۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں کم علمی، شعورکا فقدان اور والدین کی لاپرواہی شامل ہے۔

محض خواہش کرنا کسی مقصد میں کامیابی کے لئے کافی نہیں۔ اس کے لئے درست وقت پر درست فیصلہ اور مناسب حکمتِ عملی ایک ناگزیر عمل ہے۔  بچوں کی تربیت ایک  کُل وقتی سرگرمی ہے۔ اس میں معلولی سی کوتاہی سخت نقصان دہ  ثابت ہوتی ہے۔ بچوں کی تربیت کے عمل کو سمجھنے کے لئے باغبان یاں کمہار کی مثال سب سے بہترین ہے۔ میں آپ کو کمہارکی مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔خوبصورت برتن بنانے کے لئے کمہار سب سے پہلے مٹی کا چناو کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ ایسی مٹی کا چناو کرے گا جس میں چکنی مٹی اور ریت دونوں مناسب مقدار میں ہو۔ پھر ان کو انتہائی  انتہائی محنت سے گوندتا ہے اور ایک خاص قسم کا مکسچر تیار کرتا ہے۔ کمہار کو پتہ ہوتا ہے کہ کون سا برتن بنانا ہے اوراس کے لئے کتنی مقدار میں مٹی چایئے۔ مناسب تیار مٹی کو گول چکے پر رکھتا ہے اور پیروں سے چکے کو گمانا شروع کردیتا ہے۔ برتن کی  تیاری کے سارے عمل میں وہ انتہائی چوکنا رہتا ہے۔ برتن کی گولائی، ستھرائی، کٹائی کے تمام امور میں ہمہ تن مصروف رہتا ہے اور اس سارے عمل میں اپنی ساری مہارتیں استعمال کرتے ہوئے برتن کی تخلیق کرتا ہے۔

مٹی کی مثال انسان کے نظفہ سے ہے، کمہار والدین ہیں، گول چکہ وقت ہے، برتن کی گولائی، ستھرائی، کٹائی بچے کی تربیت کے سارے مراحل ہیں۔ جس طرح کمہار کی لاپرواہی برتنوں کو خراب کردیتی ہے ، اسی طرح والدین کی لاپرواہی بچوں کو ضائع۔ جس طرح اچھے اورخوبصورت برتن بنانے کے لئے کمہار کے پاس تمام مہارتوں کا ہونا لازم ہے، اسی طرح نیک، باادب اور کامیاب انسان کی تکمیل کے لئے والدین کے پاس بچوں کی تربیت سے متعلقہ تمام مہارتوں کا ہونا ضروری ہے۔

بچوں کی تربیت کے چار مراحل

بچوں کی تربیت کے عمل کو چار  حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے۔ ایک کا تعلق ان کی اخلاقی نشوونما ء  سےہے، دوسری انکی ذہنی استعداد سے متعلقہ ہے، تیسری   بچوں کی جسمانی  تربیت کے زمرے میں آتی ہے اورآخری انکی نفسیاتی اورجذباتی کیفیت سے تعلق رکھتی ہے۔

اخلاقی اور نفسیاتی تربیت کا آپسی تعلق

اخلاقی اور نفسیاتی تربیت آپس میں مربوط ہیں۔ اگر آپ بچے کی محض اخلاقی تربیت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو نفسیاتی تربیت خودکار طریقے سے ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اخلاقی تربیت کا تعلق مثبت رویوں کی آبیاری سے ہے ، نفسیاتی  بیماری میں ذہن پر منفی رویوں کا غلبہ ہوجاتا ہے، جب والدین بچے کی اخلاقی تربیت کو احسن طریقہ سے انجام دے رہے ہوتے ہیں تو ساتھ ساتھ بچے کے اندر مثبت  رویے بھی پنپ رہے ہوتے ہیں جو اس کو ایک اچھا انسان بنانے میں معاونت کرتے ہیں۔ والدین کو بچوں کا تربیتی عمل شروع کرنے کے لئے سب سے پہلے اخلاقی پہلو کو ہی ٹارگٹ کرنا چائیے کیونکہ اخلاقی تربیت کے لئے بچہ پیدائش کے عمل کے دوران ہی اثر لینا شروع دیتا ہے۔ یہاں میں آپ سے اپنی مثال شئر کرتا ہوں۔

میرا بڑا بیٹا  حسن جب ابھی پیدا ہی ہوا تھا تو میں اس کے سرھانے موبائل میں قرآن شریف کی تلاوت لگا دیتا تھا۔ جب وہ بڑھا ہوا تو اس میں میں نے مندرجہ ذیل خوبیاں نوٹ کیں۔

·       حسن نے صرف ایک سال  کے عرصہ میں قرآن ختم کرلیا تھا۔ اس وقت اس کی عمر صرف چھ سال تھی۔

·       حسن فطرتاً  انتہائی پاکیزہ صفت انسان تھا۔

·       اس کا رجحان اخلاقی قدروں کی طرف زیادہ تھا۔

·       وہ عام بچوں کی طرح ڈیپرشن کا شکار نہیں ہوجاتا۔

یہ لازم نہیں کہ بچے کو قرآن مجید کی تلاوت ہی سنائی جائے، آپ اپنے مذہب کے مطابق گیتا، رامائن ، گوروگھرنتھ، توریت، زبور وغیرہ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔

ذہنی اورجسمانی تربیت کا آپسی تعلق

ذہنی اورجسمانی تربیت بھی ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں۔ اگر جسم صحت من ہوگا تو ذہن بھی اپنی استعداد کے مطابق عمل کرے گا۔والدین بچوں کی مربوط تربیت کے لئے سب سے پہلےاخلاقی تربیت کا انتظام کریں اور بچہ جب چلنے پھرنے کے قابل ہو جائے تو اس کی صحت کی طرف خاص دھیان دیں۔

ایک بات میں نے بہت شدت سے مشاہدہ کی ہے۔ اکثر والدین کا سارا زور خوراک پر ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت بچے کے منہ میں ٹھونسا ٹھونسی کرتے رہتے ہیں۔ بچے کو سادہ خوراک دیں جس میں پھل اور دودھ زیادہ سے زیادہ ہو۔ بچے کا وزن اتنا نہ بڑھنے دیں کہ اس میں موٹاپا آ جائے۔  کھانے کی ہر چیز میں توازن رکھیں۔کھیلنے کے لئے لازم جگہ فراہم کریں۔ اگر گھر چھوٹا ہے تو ٹیبل ٹینس، باسکٹ بال یاں کوئی بھی ایسا کھیل جو آپ اپنے گھر میں مینج کرسکیں اس کا انتظام کریں۔ بچوں کے ساتھ خود بھی کھیل میں حصہ لیں۔ اس سے والدین اور بچوں کے درمیان  اچھے تعلقات پیدا ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی خوشی کو سیلی بریٹ لازماً کریں۔ان سے مل کر چھوٹی چھوٹی بے ضرر شراتیں کریں جس سے کسی کو نقصان نہ پہنچے۔ ہفتے میں ایک بار لازم بچوں کو نزدیکی پارک میں لے جائیں۔ اپنے بچوں کی آپس میں ریس لگوائیں۔ ان کو خوب تھکائیں۔ساتھ خود بھی دوریں۔اس سے آپ کے اپنے اعصاب  کا تناوختم ہوگا۔

غصیلے اورچڑچڑے  بچوں کا علاج

بچوں میں بے پناہ انرجی ہوتی ہے جوکہ بہت تیزی سے جسم کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ اس کو ڈسچارج کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر اس کو ڈسچارج نہ کیا جائے تو بچے نفسیاتی   حیجان میں مبتلاء ہوجائیں گے۔ اس سے بچے چرچرے ، غصیلے اور جھگرالو ہاجاتے ہیں۔ اگر آپ کے بچوں میں یہ کیفیت ہے تو ان کے لئے ایسے مواقع پیدا کریں کہ ان کی توانائی متواتر ڈسچارج ہوتی رہے۔

بچوں کی تربیت کا پلان

بچوں کی تربیت ایک بہت پیچیدہ  عمل ہے جس کے لئے والدین کو خاص منصوبہ بندی کرنا پڑے گی۔  اکثر والدین کے پاس صرف ایک ہی حربہ ہوتا ہے کہ جب دل چاہا بچے کو ڈانٹ دیا اور جب دل کیا اُس کی غلطیوں پر پردہ ڈال دیا۔ اگر  والدین اپنا سارا ڈیپریشن بچوں پر ہی نکالیں گے اور اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ بچے کوئی غلطی تو کریں۔ ادھر بچے نے غلطی کی، ادھر والدین نے ڈنڈا اُٹھا لیا اور بچے کو سیکنا شروع کردیا۔ اس بچے سخت دل، سنگ دل  اور کرخت ہو جاتے ہیں اوربڑے ہوگر نہ تو والدین کے لئے سکھ کا باٰعث بنتے ہیں اور نہ ہی معاشرہ کو کسی قسم کا فائدہ پہنچاتے ہیں۔

اُم المومنین عائشہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں عر ض کی کہ آپ لوگ بچوں کو بوسہ دیتے ہیں ہم انہیں بوسہ نہیں دیتے حضور نے ارشاد فرمایا: ’’ اﷲ تعالیٰ نے تیرے دل سے رحمت نکال لی ہے تو میں کیا کروں۔‘‘ (صحیح بخاری و مسلم )

بچوں کے اندر مثبت عادات کی آبیاری اور منفی عادات کو روک تھام کے لئے آپ کو عادات کا ایک چارٹ بنانا پڑے گا۔ ان تمام عادات کی ایک فہرست بنائیں جو اچھی اور بڑی ہیں۔ ان کو  کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کردیں جہاں نہ صرف آپ کی بلکہ بچوں کی نظر اس پر پڑتی رہے۔ تربیت کا عمل شروع کرنے سے پہلے بچوں کو چارٹ کے سامنے لے جائیں اور تما م اچھی اور بڑی عادات کی تفصیل سے وضاحت کردیں۔ بچوں کو اچھی طرح سے سمجھا دیں کہ یہ کیوں اچھی ہیں اور بڑی عادات کیوں بُری ہیں اور ان کے کیا نقصانات ہیں۔

اب بچوں سے پوچھیں کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ ان اچھی عادات کو اپنے مزاج کا حصہ بنا کر اچھے بچے بن جائیں یاں پھر گندگی عادات کو اپنا کربُڑے بچے۔

بچے لازماً اچھا بننے کی آرزا کا اظہار کریں گے۔ ان سے وعدہ لیں کہ وہ اچھی عادتیں اپنانے میں سبقت کریں گے اور بڑی عادتوں کے قریب نہیں جائیں گے۔ بچوں کو دو ٹوک بتا دیں کہ اگر انہوں نے اس پر عمل نہ کیا تو اس پر انہیں سزا ملے گی۔ سزا کا طریقہ بھی بچوں کے مشورہ سے ہی طے کریں۔ مار پیٹ، ڈانٹ ڈپٹ سزا کا حصہ نہیں ہونا چائیے ۔ کیونکہ بچے ابھی سیکھنے کے عمل میں ہیں۔ بچے اگر کسی اصول کی پیروی نہیں کرتے ت صرف بچے کو احساس دلانا  ہی کافی ہے۔

حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا،

’’ اپنی اولاد کا اکرام (عزت) کرو اور انھیں آداب سکھاؤ۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)

  اس سارے عمل کے مندرجہ ذیل فوائد ہونگے۔

·       بچوں کے ایک ہی دن اچھے اوربڑے کی تمیز ہوجائے گی۔

·       یہ قوانین بنانے میں بچوں کی اپنی مرضی شامل تھی۔ اس سے بچوں کے اندر "اونرشپ" قائم ہوگی اوربچے بغیر حیل و حجت اس پر عمل بھی کریں گے۔

اب آپ کے بچوں کی تربیت کا باقاعدہ عمل شروع ہونے والا ہے۔ پہلے والدین کو خود سے ایک رول ماڈل بننا پڑے گا۔ جو قوانین آپ نے بچوں کے لئے بنائے ہیں ، آپ نے خود بھی اس پر عمل کرنا ہے۔ دوسری صورت بچوں سے یہ امید نہ رکھیں کہ  وہ ان پر عمل کریں گے۔ بچوں کے لئے عادات کا چارٹ بنانے کے لئے آپ "بچوں کی تربیت میں  حکیم لقمان کے ارشادات " کی معاونت لے سکتے ہیں۔ یہ  اخلاقیات کے عالمگیر  قوانین  کی کسوٹی پر پورا اترتے ہیں  اور کسی بھی زمانے یا ں مذہب کے لوگوں کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں جو اپنے بچوں کی بہترین تبیت کے متمنی ہیں۔

بچوں کی تربیت میں  حکیم لقمان کے ارشادات

بچوں کے لئے عادات کا چارٹ بنانے کے لئے آپ "بچوں کی تربیت میں  حکیم لقمان کے ارشادات " کی معاونت لے سکتے ہیں۔ یہ  اخلاقیات کے عالمگیر  قوانین  کی کسوٹی پر پورا اترتے ہیں  اور کسی بھی زمانے یا ں مذہب کے لوگوں کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں جو اپنے بچوں کی بہترین  تربیت کے متمنی ہیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

اور اُس وقت کا ذکر کیجئے جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے بیٹے! اللہ کا شریک نہ ٹھہرانا ،بے شک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔

    اے میرے بیٹے!

اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر ہو (تو بھی اسے معمولی نہ سمجھنا،وہ عمل ) کسی پتھر میں ہو یا آسمانوں میں ہویا پھر زمین کے اندر(زمین کی تہہ میں چھپا ہوا ہو ) اللہ تبارک وتعالیٰ اسے ظاہر کردے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین وباخبر ہے۔

اے میرے بیٹے! نماز قائم کرو ،اور اچھے کاموں کی نصیحت کیا کرو ،اور برے کاموں سے منع کیا کرو،اور جو کچھ پیش آئے اس پر صبر کیا کرو،بے شک یہ(صبر) ہمت کے کاموں میں سے ہے ،اور لوگوں سے بے رخی مت اپناؤ،اور زمین پر تکبر سے مت چلو(کیونکہ) بے شک اللہ تعالیٰ کسی متکبر کو پسند نہیں فرماتے ،اور اپنی چال میں میانہ روی اختیا رکرو،اور اپنی آواز کو پست رکھو ،بے شک سب سے بری آواز گدھے کی ہے۔

  (سورۃ لقمان ،آیت نمبر12 اور 16 تا 19 )۔

حکیم لقمان کی اس نصیحت  میں سے ہم اخلاقی قدروں کو اخذ کرتے ہیں اور ہر ایک کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس کا بچے کی شخصیت پر کیا اثر ہوتا ہے۔

•         اللہ کا شریک ٹھہرانا  سب سے بھاری ظلم ہے۔

•         کوئی  بھی عمل نہ تو چھوٹا نہیں ہوتا۔

•         نماز قائم کرو ۔

•         اچھے کاموں کی نصیحت کیا کرو اور برے کاموں سے منع کیا کرو۔

•         مصائب پر صبر کیا کرو۔

•         لوگوں سے بے رخی مت اپناؤ۔

•         زمین پر تکبر سے مت چلو۔

•         اپنی آواز کو پست رکھو۔

بچوں کے تربیتی عمل میں کسی بھی عادت یا ردِ عمل کو معمولی نہ سمجھیں۔ بچہ سب سے پہلے کوئی شے دیکھے گا، پھر اس کو سوچے گا ، یہ سوچ  بچے کے عمل کا روپ دھارے گی۔ عمل  کی تکرار عادت بن جائے گی اور عادات کی تکرار آپ کے لاشعور میں جا کر چپک جائے گی جو کہ انسانی عادات کو خودکار طریقے سے کنٹرول کرتی ہے۔

میں یہاں آپ کو ایک مثال دیکر سمجھاتا ہوں۔ قتل کرنا اور چغلی کرنا دونوں کا شمار گناہانِ کبیرہ میں ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے تربیتی عمل میں دونوں کے متعلق ردِ عمل مختلف  ہے۔   اگر کوی قتل کرتا ہے تو فوراً گرفتار کرلیا جاتا ہے لیکن چغلی کھانے پر آج تک کسی کی گرفتاری ہوئی ہے؟ اسی لئے  ہمارا لاشعور  دونوں جرائم کے متعلق کوڈنگ میں فرق  رکھتا ہے۔ لاشعورعادت کی اچھائی یاں بڑائی کے متعلق نہیں  اُلجھتا۔ اس کو صرف غرض اس بات سے ہے کہ مخصوص اعمال کے متعلق آپ کا ردِ عمل کیا ہے۔ اسی ردِعمل کے مطابق وہ ایک فیصلہ کرتا ہے اور اسے اپنی کوڈنگ کے عمل میں محفوظ کر لیتا ہے۔ یہ کوڈنگ آپ کے روزمرہ معاملات کو خودکار طریقہ سے کنٹرول کرتی ہے۔ اسی لئے لوگ چغلی کھانا ٰمعمولی سمجھتے ہیں اور قتل کرنا بہت قبیع اورخطرناک عمل سمجھا جاتا ہے۔

انسان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو ، عبادات  زندگی میں ایک توازن قائم کرتی ہیں۔ اس سے اعصاب پر سکون ہوجاتے ہیں، روزمرہ زندگی میں نظم و ضبط اور ترتیب پیدا ہوتی ہے،  منفی خیالات دور ہوجاتے ہیں، ذہن یکسو ہو جاتا ہے۔لہذا اگر آپ مسلمان ہیں تو بچوں کو نماز کاپابند بنائیں اور غیر مسلم ہیں تو اپنے مذہب کے مطابق عبادات کو اپنے معمولات میں شامل کریں۔

غم اورخوشی زندگی کا ناگزیر حصہ ہے۔ اگر آپ بچوں کو شروع سے ہی مصائب پر صبر کرنے کی عادت ڈال دیں گے تو وہ مستقبل  میں آنے والے حادثات کو آسانی سے سہ جائیں گے۔ دنیا میں 264 ملین سے زیادہ افراد ڈیپریشن  کا شکار ہیں  جو کہ معذوری کی ایک اہم وجہ ہے۔  ولڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ادادوشمار کے مطابق  ہر سال 800،000 کے قریب افراد خودکشی کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں یعنی ہر 40 سیکنڈ کے اندر  ایک شخص موت کو اپنے گلے لگا لیتا ہے۔ خود کشی سے مرنے والے تمام لوگوں میں 50 فیصد سے زیادہ افراد ذہنی دباؤ کا شکار  ہوتے ہیں۔

آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ مردہ کو زمین میں دفن کیوں کردیتے ہیں یاں پھر اس کو جلایا کیوں جاتا ہے۔   کسی کا انتہائی قریبی عزیز جس کے بغیر وہ زندگی کا ایک بھی دن گزارنا  سوچ بھی نہیں سکتا، اس کی موت کے بعد اُسے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اُسے قبر کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔

کیا اس لئے کہ  مردہ میں سے بدبو آنا شروع ہوجاتی ہے یاں اس لئے کہ آپ کے مذہب میں ایسا کرنے کا حکم ہے؟

میں اس سے متفق نہیں۔ ہمارا مذہب ہمیں بہت کچھ کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن ہم اس کے پچاس فیصدی احکامات پر بھی عمل نہیں کرتے۔ میرے تجربہ میں کئی ایسے لوگ ہیں جو مرنے سے پہلے سالوں سال بیڈ پر بیمار پڑے رہتے ہیں۔جس کمرے میں وہ پڑے ہوتے ہیں، وہاں بدبو کی وجہ سے کھڑا نہیں ہوا جاتا۔

اصل حقیقت یہ ہوتی ہے کہ معاشرہ کو یہ احساس ہوجاتا ہے کہ مردہ اب کسی کام کا نہیں رہا۔گھر والوں کو بھی یہ یقین ہوتا ہے کہ اب مرحوم ان کے لئے مفید نہیں۔

آج میں آپ کو لوگوں کے دلوں میں زندہ رہنے کا بالکل ایک نیا فلسفہ دینے جارہا ہوں۔ اگر آپ نے زندہ لوگوں کے درمیان رہنا ہے تو ان کو قطعاً یہ احساس نہ ہونے دیں کہ آپ ان کے لئے مفید نہیں۔ آپ کی قدر اس وقت تک ہی ہے جب تک آپ لوگوں کے کام آتے رہیں گے۔ اگر آپ لوگوں کی نظر میں عزت چاہتے ہیں تو ان کو یہ احساس دلاتے رہیں کہ آپ ان کے لئے کس قدر مفید ہیں۔

لوگوں کو یہ احساس مت دلائیں کہ وہ آپ کے بغیر زندہ رہنا سیکھ جائیں۔اس دن آپ کی اپنی موت ہو گی۔ حکیم لقمان کی لوگوں سے بے رخی مت اپناؤوالی نصیحت میں اسی نقطے کو بیان کیا گیا ہے۔

بچوں کی تربیت  میں کیئر کونسلنگ کا کردار

ایک ہی ماں کے بچوں کی فطرت آپس میں مختلف کیوں ہوتی ہے؟ ان بچو ں کو تقریباً ایک جیسا ہی ماحول ملتا ہے جہاں وہ پل کر جوان ہوتے ہیں لیکن تمام بچے بڑے ہوکر ایک جیسے کامیاب یاں خوشحال کیوں نہیں ہوتے۔ ہم میں سے بہت کم لوگ ہیں جہنوں نے اس پر سوچا ہوگا۔

کنکٹیکیٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سماجی علوم کے ماہر مارک ہمیلٹن کے مطابق لوگوں کی شخصیت میں ان کے پیدائش کا مہینہ اور موسم بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے بروج ان کی عادات کو جاننے کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اس طرح کے اثرات انفرادی سطح پر ہوسکتا ہے کہ بالکل واضح نہ ہو مگر کسی خاص مہینے میں پیدا ہونے والے افراد کی عادات کا اوسط بڑے پیمانے پر دیکھا جائے تو ان میں مماثلت نظر آئے گی۔

اگر دنیا میں ایک فطرت کے لوگ پیدا ہوتے تو دنیا کا نظام نہیں چلا سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ جو سب سے بڑا دانااور حکمت والا ہے ، اس کی دانائی اور حکمت کی نشانیاں کائنات میں ہر شے کی تخلیق میں نظر آتی ہیں۔فرض کریں اگر تمام لوگ حاکم فطرت پیدا ہوتے تو وہ ایک دوسرے کی اطاعت قطعاً قبول نہ کرتے۔ اگر تمام لوگ عام سوچ کے مالک ہوتے تو دنیا کا ارتقاء ممکن نہ تھا۔ نظامِ حیات چلانے کے لئے مختلف فطرت کے حامل لوگوں کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کے تمام شعبوں میں متوازناورمربوط ترقی کا عمل جاری و ساری رہے۔

والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کی کیئرئر کونسلنگ کے لئے پہلے یہ جان لیں کہ آپ کا بچہ کس تاریخ کو پیدا ہوا اور اس کے اندر کونسی کونسی خوبیاں اور خامیاں ہیں۔ اس کی پسند ناپسند، رجحان اور فطرت کے متعلق آگاہی اس کے شاندار مستقبل کو ممکن بنائے گی۔  بچے کے مستقبل سے آگاہی کے لئے پیدائشی زائچہ  یاں جنم کندلی بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔ زائچہ یا ں جنم کندلی میں صاحب زائچہ کی پیدائش کے  وقت زمین کو مرکزمانتے ہوئے کائنات کی ایسی تصور کھیچ لی جاتی ہے جس میں نظامِ شمسی میں موجودتمام سیارے 360 ڈگری کے دائرے کے اندراپنے اپنے مدار کے اندر بارہ گھروں میں  سے کسی ایک کے اندرموجود ہوتے ہیں۔ ان کی اس وقت کی حرکت اور مخصوص گھر میں موجودگی صاحبِ زائچہ کے مستقبل کے متعلق پیشین گوئی کرنے میں معاونت  کرتی ہے۔زائچہ بنانے کیلئے کسی بھی شخص کی پیدائش، وقت پیدائش اور مقام پیدائش کی ضرورت پیش آتی ہے۔

مثلاً جن لوگوں کی پیدائش   21 مارچ سے 20 اپریل  کے درمیان ہوگی ، انکے اندر یہ خوبیاں ہونگی۔

خوبیاں    محنتی ، ذہین، پرعزم، خوش لباس ، متاثر کن ، لوگوں میں مقبول، نرم دل ، کامیابی کے خواہاں ، دوراندیش،     ہوشیار، پرکشش، ہمدرد ، جدت پسند،حساس ، محتاط ، منلسار،  فیاض، دوست نواز ، طاقتور۔

خامیاں   حاسد ،جنسی بے راہ رو ، فضول خرچ ،شادی سے کنی کترانا ، منہ پھٹ ،نفسیاتی الجھنوں کا شکار، مغرور، توہم پرست، غیر ذمہ دار ، خوشامد پسند،سست کاہل ، کام ادھورے چھورنے والے ، مکار ، مفاد پرست۔

اب اگر والدین پر لازم ہے کہ وہ حملی افراد بچوں کے لئے ایسے پیشے کی بچپن سے ہی منصوبہ بندی کر لیں جو کہ ان کی فطرت سے میلان رکھتی ہو۔  ھملی افراد کے لئے دس بہترین پروفیشن یہ ہوسکتے ہیں۔

1. پروفیشنل ایتھلیٹ

2. دماغ سرجن

3. ماہر بشریات

4. کاروباری

5. میرین

6. اسٹاک بروکر

7. فائر فائٹر

8. پروڈیوسر

9. ایمرجنسی میڈیکل ٹیکنیشن

10. تعلقات عامہ کا ایگزیکٹو

والدین اپنے بچے کاتاریخِ پیداش معلوم کریں اور دس بیترین پروفیش کو ""گوگل" کرلیں۔

بچوں کی تربیت اور مکافاتِ عمل

بچوں کی تربیت کی تفصیل میں جانے سے پہلے زندگی کا فلسفہ سمجھ لیں۔ زندگی مکافاتِ عمل ہے۔ جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔ جو کسی کو دیں گے وہی آپ کی طرف پلٹ کر آئے گا۔ انسان کے عمل کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ایک کا تعلق گھر سے باہر اور ایک کا تعلق گھر کے اندر کے معاملات سے ہوتا ہے۔ بچہ ابتدائی دس سالوںمیں اپنے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ وہ جو دیکھتا ہے اس کا دماغ خودکار طریقہ سے اسے پروسیس کرتا رہتا ہے۔ اس کے محسوسات ، نظریات میں کنورٹ ہوتے ہیں۔ نظریات  خیالات میں منتقل ہوجاتے ہیں اورخیلات عادات کا روپ دھار لیتی ہیں۔

عموماً بچوں کا زیادہ وقت  ماں کے ساتھ گزارتا ہے۔ بچے بالخصوص ماں اور باپ کے  ہر عمل کو انتہائی غور سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔دیکھتے ہیں اور پھر ماحول میں موجود عناصر کے اثر کے تحت ہی اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سمجھتے ہیں اور پھر نتیجہ بھی خود ہی اخذ کرتے ہیں۔عام طور پر اس سارے عمل میں بچوں کو کوئی بیرونی امداد حاصل نہیں ہوتی، چنانچہ وہ نتائج اخذ کرنے میں بھی آزاد ہوتے ہیں۔ یہی نتیجہ بچے کی عادت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

اگر ماں چاہتی ہے کہ اس کا بچہ نیک، کامیاب اور اچھا بنے تو اسے بچے کے سامنے دیوی بننا ہوگا اور والد کو ولی اللہ۔ اس کے بغیر آپ اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب بہیں ہوسکتے۔ آپ جتنا دل چاہے "کاسمیٹک سرجری" کرلیں، آپ کو اپنے مقصد میں کلی  کامیابی نہیں ہوگی۔ اس بات کی مذید وضاحت کے لئے یہاں میں ایک واقعہ پیشِ خدمت کرنے لگا ہوں۔

میرے پاس ایک دوست ملنے آئے۔  ان کا  بہت بڑا بزنس ہے۔ یہ انتہائی دانشمند انسان اور کامیاب بزنس مین ہیں۔  باتوں باتوں میں بچوں کے متعلق گفتگو شروع ہوگئی۔ موصوف اس بات کے سخت حق میں تھے کہ بچوں کی تربیت کی طرف خاص دھیان دینا چائیے کیونکہ یہی ہمارا سرمایہ حیات ہیں۔ میرے دریافت کرنے پر اُنہوں نے بتایا کہ تینوں بچے بیکن ہاوس میں پوزیشن ہولڈر ہیں اور سارا تعلیمی کیئرر سکالرشب لیتے رہے ہیں۔ ایک باہر میڈیکل میں سپیشلائزیشن کے لئے گیا ہے، لڑکی فارن آفس میں اعلیٰ عہدہ پر فائز ہے اور چھوٹا بیٹا ابھی ایم فل کررہا ہے۔

میں نے اس سارے واقعہ کا ذکر اپنی بیوی سے کیا  تو اس کا جواب سن کر میں حیران رہ گیا۔  ان صاحب کے سسر کی وفات ہوگئی ۔ افسوس کے لئے میری والدہ اور بیوی ان صاحب  کے گھر گئے۔ ابھی انہیں بیٹھے  پانچ منٹ ہی ہوئے تھے اور رسمی جملوں کا تبادلہ ہورہا تھا ااور فاتحہ بھی نہ پڑھی گئی تھی کہ چھوٹا بچہ جو کہ ایم فل کرہا تھا ، ڈرائنگ روم میں آیا اور اپنی ماں سے کہنے لگا۔

"امی ان مہمانوں نے کب جانا ہے۔ جلدی کریں، ہمیں شاپنگ پر بھی جانا ہے۔"

جن دوست کی میں  نے بات کی ہے، اُن کے والد مقامی قبرستان میں ہی دفن ہیں۔ وہ علاقہ کی بہت معتبر شخصیت تھی۔ سوسائٹی کی کوئی بھی تقریب،  شادی، خوشی، غمی کی کوئی محفل  ان کی شرکت کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی تھی۔قبرستان میں داخل ہوتے وقت سب سے پہلے انہی بزرگ کی قبر آتی ہےجس کا تعویز ٹوٹا ہوا ہے۔ جب بھی میں قبرستان جاتا ہوں مجھے فوراً اپنے دوست کی بات یاد آجاتی ہے۔اسے  کہتے ہیں مکافاتِ عمل۔ اللہ اس طرح سے انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو سلب کر لیتے ہیں اور توفیقات چھین لیتے ہیں۔

اپنی اولاد سے توں تعظیم کی امید نہ رکھ

اپنے ماں باپ سے جب توں نے بغاوت کی ہے

اولاد کی تربیت سے متعلقہ ایک اورواقعہ مجھے یادآرہا ہے۔ بہت مشہورواقع ہے اوراکثر نے یہ سنا ہوگا۔ میں مختصر اسے بیان کرنے لگا ہوں۔

ایک نیک آدمی  وضو کررہا تھا۔ دریا میں پانی کے بہاو کے ساتھ ایک سیب تیرتا ہوا آرہا تھا۔ آدمی نے وہ سیب کھا لیا۔ بعد ازاں خیال آیا کہ سیب کے کھانے میں تو مالک کی مرضی ہی شامل نہ تھی۔ مالک کو ڈھونڈتے سیبوں کے باغ پہنچ گئے اور غلطی کی معافی مانگی۔ باغ کے مالک  معافی کے لئے باغ میں دس سال تک بلا اجرت غلامی کرنے کی شرط رکھی۔ دس سال غلامی کرنے کے بعد جانے کی اجازت مانگی تو مالک نے کہا کہ ابھی سزاباقی ہے۔ تم کو میری بیٹی سے شادی کرنا ہوگی۔ جو اندھی ہے، لنگڑی ہے اور ٹنڈی بھی ہے۔

نیک آدمی اس پر بھی مان گیا کیونکہ جانتا تھا کہ قیامت کا عذاب اس سے کئی زیادہ سخت اور نہ ختم ہونے والا ہے۔

نکاح ہوگیا ، بیوی کو دیکھاتو بالکل ٹھیک، بھلی چنگی اورخوبصورت نیک بخت عورت تھی۔ بھاگا بھاگا مالک کے پاس گیا اور سارا ماجرہ سنایا۔ مالک نے کہا کہ میں اب بھی وہی کہتا ہوں جو پہلے کہاں تھا۔میری لڑکی اندھی ہے کیونکہ آج تک اس نے کچھ غلط دیکھا نہیں۔ لنگڑی ہے کیونکہ بڑائی کی طرف چل کر کبھی گئی نہیں اور ٹنڈی ہے کیونکہ اس نے بڑا کام نہیں کیا۔  اس نیک مرد اور نیک بخت کے جو اولاد ہوئی ان کا نام شیخ عبدالقادر جیلانی تھا۔

لہذا اگر والدین کی خواہش ہے کہ بیٹے میں حسین جیسی سیرت ہو تو ماں کا کردار فاطمہ جیسا  اور باپ کی سیرت علی جیسی ہو۔ بیج اگر تُمہ کا ہوگا تو اس پر شیریں آموں کی خواہش تو کی جاسکتی ہے لیکن عملی طور پر اس پر تُمہ کے کڑوے پھل ہی آئیں گے۔ بیج انگور کا ہوگا تو ہی انگور کی فصل آئے گی۔

نال کسنگی سنگ نہ کرئیے کُل نو نلاج نہ لائیے ہُو

تمے تربوز مول نہ ہوندے توڑ مکے لے جایئے ہُو

کانواں دے بچے ہنس نہ تھیندے موتی چوگ چگایئے ہُو

کوڑے کھوہ نہ مٹھے ہوندے باہو سئے مناں کھنڈ پایئے ہُو

بچے والدین کی شبیہ ہوتے ہیں۔ میں بچوں کو مل کر بتا سکتا ہوں کہ ان کے والدین کیسے ہیں اور والدین کو ملکر مجھے علم ہوجاتا ہے کہ بچے کیسے ہونگے؟

اگر والدین میں جھوٹ بولنے کی عادت ہے  تو بچے لازماً جھوٹے ہونگے۔ اگر ماں باپ آپس میں لڑائی جگڑا کرتے ہیں تو بچے بھی جگڑالو ہونگے۔ بچے وہی کریں گے تو وہ دیکھتے ہیں اورماں باپ ان کے لئے بہترین رول ماڈل ہوتے ہیں۔ اگر دادی خدیجہ جیسی عورت ہوگی تو نواسے حسین جیسے ہونگے اور اگر دادی ہندہ ہوگی تو نواسہ لازماً یذید ہوگا۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی

Post Add 1

Post Add 2